۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
محرم

حوزہ/ دیگر مذاہب اپنے سال کا آغاز خوشی کے ساتھ مناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دیتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں، وغیرہ وغیرہ مگر مسلمانوں میں یہ رواج نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟؟

حوزہ نیوز ایجنسی | دیگر مذاہب اپنے سال کا آغاز خوشی کے ساتھ مناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دیتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں، وغیرہ وغیرہ مگر مسلمانوں میں یہ رواج نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟؟

اس بات سے بحث نہیں کہ کیا اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے یا یہ کہ سال کا پہلا مہینہ ربیع الاول ہے۔ ماہ محرم سے سال کا آغاز ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو مگر یہ تو طے ہے کہ یہ مہینہ اہل بیت پیغمبرؐ کے لیے غم کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں واقعہ کربلا رونما ہوا جس کی یاد اہلبیت اطہار اور ان کے شیعوں کے دل کو غم سے بھر دیتی ہے۔ ایک معتبر روایت جو شیعوں کی کتب احادیث میں نقل ہوئ ہے، میں ملتا ہے، جس میں امام رضا (ع) فرماتے ہیں: “ماہ محرم کے شروع ہوتے ہی کوئی میرے والد کو مسکراتا ہوا نہیں پا سکتا تھا اور عاشورا کے دن تک آپ کے چہرے پر اندوہ اور پریشانی کا غلبہ ہوتا تھا اور عاشور کا دن آپ کے لئے مصیبت اور رونے کا دن ہوتا تھا۔”

آپؑ فرماتے تھے: “آج وہ دن ہے کہ جس دن حسین(ع) شہید ہوئے ہیں۔”

(منتہی الآمال، ج 1، ص 540)

اس روایت میں امام رضا علیہ السلام نے اپنے بابا امام موسی کاظم علیہ السلام کی کیفیت کا ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح اہلبیت کی ہر ایک فرد پر ماہ محرم کا چاند غم کے آثار پیدا کرتا رہا۔

اہلبیت نبویؐ نے سنہ ١٠ ہجری کے بعد ہر ماہ محرم کو صرف سبط اصغر، سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم منایا ہے۔ اسی ماہ کی ٢۵ تاریخ کو فرزند امام حسینؑ امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت بھی واقع ہوئ ہے۔ مگر ماہ محرم کے ایام میں شہداء کربلا اور اسیران کربلا کی یاد منائ جاتی ہے اور ان پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام کو یاد کرکے گریہ کیا جاتا ہے اور ان کا غم منایا جاتا ہے۔

شیخ صدوق کی کتاب ‘الامالی’ میں اسی ماہ عزا کے ضمن میں ایک روایت نقل ہے جس میں امام علی ابن موسی (علیہما السلام) نے ابن شبیب سے فرمایا: “محرم وہ مہینہ ہے جس میں اہل جاہلیت (کفار مکہ) جنگ کرنے کو حرام سمجھتے تھے مگر افسوس مسلمانوں نے اسی مہینے میں ہمارا خون بہایا، ہماری حرمت کو پامال کیا، ہماری عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا….”

(امالی شیخ صدوق: صفحہ ١١١ بحار الانوار جلد ۴۴ صفحہ ٢٨٣)

یقینا یہ مہینہ اہل بیت اطہار کے لیے مصیبت کا مہینہ رہا ہے۔ اس ماہ کی دو تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کا قافلہ سرزمین کربلا پر وارد ہوا۔ حیف ہےکہ خیام حسینی دریا کے قریب نہیں نصب کرنے دیے گئے۔ دشمن کے لشکر کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی گئ۔ محرم کی سات تاریخ سے امام مظلوم اور ان کے اصحاب پر پانی بالکل بند کردیا گیا۔ بچوں کی ‘العطش العطش’ کی صداءوں نے دشمن کے دل پر کوئ اثر نہ کیا یہاں تک کہ دسویں محرم کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کے تمام افراد اور تمام اصحاب کو بھوکا پیاسہ شہید کردیا گیا۔ عصر عاشور پنجتن پاک کی آخری فرد کو مظلومانہ طریقے سے شہید کردیا گیا۔

اس کے بعد جو ہوا وہ اور المناک اور غمناک ہے۔ سید مظلوم کے خیام کو لوٹ کر ان کی ناموس اور بچوں کو قیدی بنایا گیا۔ یہ سارا ماجرا سرزمین کربلا پر محرم کے سورج و چاند دیکھتے رہے۔

ان تمام مصائب کو امام علی ابن موسیٰ الرضا (علیہما السلام) نے اپنے صحابی سے اس طرح نقل کیا ہے…

قال:” یا ابن شبیب إنّ المحرّم هو الشهر الّذی کان أهل الجاهلیّة فیما مضی یحرّمون فیه الظلم و القتال لحرمته، فما عرفت هذه الامّة حرمة شهرها، و لا حرمة نبیّها

صلّی اللّه علیه و آله، لقد قتلوا فی هذا الشهر ذرّیّته و سبوا نساءه، و انتهبوا ثقله فلا غفر اللّه لهم ذلک أبدا.”

“اے فرزند شبیب! ماہ محرم کی حرمت کو اہل جاہلیت (کفار) بھی مانتے تھے اور اس مہینے کی حرمت کا خیال کرتے ہوے اس ماہ نہ کسی پرظلم کرتے تھے نہ کسی سے جنگ کرتے تھے۔ مگر افسوس اس امت نے نہ اس مہینے کی حرمت کا خیال کیا اور نہ ہی اپنے بنی صلی اللہ علیہ وآلہ کی حرمت کا خیال کیا۔ انھوں نے اسی مہینے میں رسول کی ذریت کو قتل کیا اور ان کی بیٹیوں کو قیدی بنایا اور ان کی حرمت کو پاش پاش کردیا۔ اللہ کبھی ان کے ان جرائم کو معاف نہیں کرے گا۔ (عوالم جلد ١٧ صفحہ ۵٣٨-۵٣٩)

امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد، چاہنے والوں اور اہل تشیع کے لئے یہ مہینہ عزاداری کا مہینہ قرار پایا۔ اسی زمانے سے ہی، آئمہ معصومین(ع) اور اہل تشیع اس مہینے میں عزاداری منانے کا اہتمام کرتے تھے۔ تشیع کی پہچان ہی یہ ہے کہ اہل بیت کی خوشی میں خوشی اور ان کے غم میں غم مناتے ہیں۔

یہی باعث ہے کہ اہل تشیع ماہ محرم کو ماہ غم کے طور پر مناتے ہیں جو کتب معتبر اور ثقہ روایت کی بنیاد پر یہی سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس سیرت نبویؐ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .